EN हिंदी
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق | شیح شیری
qahr hai maut hai qaza hai ishq

غزل

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق

مومن خاں مومن

;

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو یوں ہے بری بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دینا
وہ بہت پوچھتے ہیں کیا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئی پردہ نشیں
کہ مرے دل میں آ چھپا ہے عشق

بوالہوس اور لاف جانبازی
کھیل کیسا سمجھ لیا ہے عشق

وصل میں احتمال شادی مرگ
چارہ گر درد بے دوا ہے عشق

سوجھے کیونکر فریب دل داری
دشمن آشنا نما ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا
تلخ کامی پہ بامزا ہے عشق

ہم کو ترجیح تم پہ ہے یعنی
دل ربا حسن و جاں ربا ہے عشق

دیکھ حالت مری کہیں کافر
نام دوزخ کا کیوں دھرا ہے عشق

دیکھیے کس جگہ ڈبو دے گا
میری کشتی کا ناخدا ہے عشق

اب تو دل عشق کا مزا چکھا
ہم نہ کہتے تھے کیوں برا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہیں گے سچ ہے
باوفا حسن و بے وفا ہے عشق

میں وہ مجنون وحشت آرا ہوں
نام سے میرے بھاگتا ہے عشق

قیس و فرہاد و وامق و مومنؔ
مر گئے سب ہی کیا وبا ہے عشق