EN हिंदी
پرانے رنگ میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں | شیح شیری
purane rang mein ashk-e-gham taza milata hun

غزل

پرانے رنگ میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں

ذوالفقار نقوی

;

پرانے رنگ میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں
در و دیوار پر کچھ عکس نا دیدہ سجاتا ہوں

مجھے صحرا نوردی راس آتی جا رہی ہے اب
خرابات چمن میں لالہ و سوسن اگاتا ہوں

مرے اس شوق سے دریا کنارے سب شناسا ہیں
جہاں طوفاں ہو موجوں کا وہاں لنگر اٹھاتا ہوں

تمہاری نغمہ‌ سنجی کی دکاں پر جو نہیں ملتا
وہی اک نغمۂ پر سوز میں سب کو سناتا ہوں

نہ جانے کس نگر آباد ہو جاتی ہیں وہ جا کر
میں اکثر شام کو چھت سے پتنگیں جو اڑاتا ہوں

پڑے ہیں آبلے لیکن قدم پھر بھی ہیں برجستہ
میں کب سے لاش اپنی اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہوں