EN हिंदी
پھر لوٹا ہے خورشید جہاں تاب سفر سے | شیح شیری
phir lauTa hai KHurshid-e-jahan-tab safar se

غزل

پھر لوٹا ہے خورشید جہاں تاب سفر سے

فیض احمد فیض

;

پھر لوٹا ہے خورشید جہاں تاب سفر سے
پھر نور سحر دست و گریباں ہے سحر سے

پھر آگ بھڑکنے لگی ہر ساز طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدۂ تر سے

پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہ گزر سے

وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوار قفس حد نظر سے

ساغر تو کھنکتے ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے

پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالا
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے