EN हिंदी
پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں | شیح شیری
phir kisi KHwab ke parde se pukara jaun

غزل

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں

عادل منصوری

;

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں
پھر کسی یاد کی تلوار سے مارا جاؤں

پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

دن کے ہنگاموں میں دامن کہیں میلا ہو جائے
رات کی نقرئی آتش میں نکھارا جاؤں

خشک کھوئے ہوئے گمنام جزیرے کی طرح
درد کے کالے سمندر سے ابھارا جاؤں

اپنی کھوئی ہوئی جنت کا طلب گار بنوں
دست یزداں سے گنہ گار سنوارا جاؤں