EN हिंदी
نگاہ ناز کا اک وار کر کے چھوڑ دیا | شیح شیری
nigah-e-naz ka ek war kar ke chhoD diya

غزل

نگاہ ناز کا اک وار کر کے چھوڑ دیا

شکیل بدایونی

;

نگاہ ناز کا اک وار کر کے چھوڑ دیا
دل حریف کو بیدار کر کے چھوڑ دیا

ہوئی تو ہے یوں ہی تردید عہد لطف و کرم
دبی زبان سے اقرار کر کے چھوڑ دیا

چھپے کچھ ایسے کہ تا زیست پھر نہ آئے نظر
رہین حسرت دیدار کر کے چھوڑ دیا

مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا

نظر کو جرأت تکمیل بندگی نہ ہوئی
طواف کوچۂ دلدار کر کے چھوڑ دیا

خوشا وہ کشمکش ربط باہمی جس نے
دل و دماغ کو بیکار کر کے چھوڑ دیا

زہے نصیب کہ دنیا نے تیرے غم نے مجھے
مسرتوں کا طلب گار کر کے چھوڑ دیا

کرم کی آس میں اب کس کے در پہ جائے شکیلؔ
جب آپ ہی نے گنہ گار کر کے چھوڑ دیا