EN हिंदी
نغمہ ایسا بھی مرے سینۂ صد چاک میں ہے | شیح شیری
naghma aisa bhi mere sina-e-sad-chaak mein hai

غزل

نغمہ ایسا بھی مرے سینۂ صد چاک میں ہے

سید عابد علی عابد

;

نغمہ ایسا بھی مرے سینۂ صد چاک میں ہے
خوف سے حشر بپا گنبد افلاک میں ہے

اے جنوں چل خم گیسو کی طرف دل تو ابھی
عالم خواب میں آداب کے پیچاک میں ہے

وہ قفس ہو کہ نشیمن ہو پنہ گاہ نہیں
طائرو نغمہ گرو برق بلا تاک میں ہے

تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے

یہ تصور ہے ابھی عرش ابھی فرش پہ تھا
رنگ و نیرنگ اسی توسن چالاک میں ہے

کیا بنے صورت اظہار معانی کہ خیال
ابھی الجھا ہوا الفاظ کے پیچاک میں ہے

در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ
ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے