EN हिंदी
نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا | شیح شیری
nalon ki kashakash sah na saka KHud tar-e-nafas bhi TuT gaya

غزل

نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا

شاد عظیم آبادی

;

نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا
اک عمر سے تھی تکلیف جسے کل شب کو وہ قیدی چھوٹ گیا

تھی تیری تمنا کاہش جاں اس درد سے میں دیوانہ تھا
چھالا تھا دل اپنے سینے میں اے وا اسفا وہ پھوٹ گیا

سب اپنی ہی اپنی دھن میں پھنسے تیرا تو نہ نکلا کام کوئی
جو آیا ترے دروازے پر وہ اپنا ہی ماتھا کوٹ گیا

تابوت پہ میرے آئے جو مٹی میں ملایا یوں کہہ کر
پھیلا دیے دست و پا اپنے اتنے ہی میں بس جی چھوٹ گیا

آیا تھا یہی دل میں میرے رندوں ہی پہ کلی بھی پھینکوں
ساقی کا اشارہ پاتے ہی میں زہر ستم کو گھوٹ گیا

ہو ہندوئے خال لب تیرا یا ترک نگہہ ہو اے قاتل
دہلی تھا ہمارا دل شاید جو آیا وہ اس کو لوٹ گیا

نازک تھا بہت کچھ دل میرا اے شادؔ تحمل ہو نہ سکا
اک ٹھیس لگی تھی یوں ہی سی کیا جلد یہ شیشہ ٹوٹ گیا