EN हिंदी
نہ ساتھ آ مرے میں گرتے فاصلوں میں ہوں | شیح شیری
na sath aa mere main girte faslon mein hun

غزل

نہ ساتھ آ مرے میں گرتے فاصلوں میں ہوں

محمد احمد رمز

;

نہ ساتھ آ مرے میں گرتے فاصلوں میں ہوں
غبار دشت ہوں اور تیز آندھیوں میں ہوں

نہ جانے قصد کہاں کا ہے کیوں نکالے قدم
زمانہ بیت گیا کیسی ہجرتوں میں ہوں

خود اپنے شام و سحر میں الجھ گیا ایسا
میں آسماں ہوں مگر اپنی گردشوں میں ہوں

بہت کشادہ فلک ہے بڑی بسیط زمیں
مگر یہ سب میں سمیٹے ہوئے پروں میں ہوں

اٹھائے پھرتے ہیں سر میرا ایک نیزے پر
بلند ہوں میں یہاں بھی جو دشمنوں میں ہوں

کوئی بھی حادثۂ جاں ہو اس کا منظر میں
اٹھا کے دیکھ لو اخبار سرخیوں میں ہوں

کوئی صدا کوئی ہلچل نہیں ہے باہر کی
میں اپنی گونج میں ہوں اپنی آہٹوں میں ہوں

کوئی بھی عکس نہیں جس میں میرا چہرہ ہو
میں آئینہ ہوں مگر کتنی حیرتوں میں ہوں

نشہ ہے نیند کا آنکھوں میں ٹوٹتا ہے بدن
کہ جیسے میں بھی لگاتار رتجگوں میں ہوں

کہ جیسے مجھ کو ڈبویا گیا ہے پانی میں
کہ جیسے میں کوئی شاطر شناوروں میں ہوں

کہ جیسے مجھ کو چڑھایا گیا ہے سولی پر
کہ جیسے میں بھی بڑے اونچے سرپھروں میں ہوں

کہ جیسے مجھ پہ ہے چھایا شکار کا آسیب
کہ جیسے میں بھی خطرناک جنگلوں میں ہوں

کہ جیسے لوگ مجھے دیکھنے کو آئے ہیں
کہ جیسے میں لٹے ہارے مسافروں میں ہوں

رہوں میں خود کو سمیٹے ہوئے سنبھالے ہوئے
یہ رمزؔ میری سزا ہے کہ دوستوں میں ہوں