EN हिंदी
نہ کوئی نام و نسب ہے نہ گوشوارہ مرا | شیح شیری
na koi nam o nasab hai na goshwara mera

غزل

نہ کوئی نام و نسب ہے نہ گوشوارہ مرا

سلیم کوثر

;

نہ کوئی نام و نسب ہے نہ گوشوارہ مرا
بس اپنی آب و ہوا ہی پہ ہے گزارہ مرا

مری زمیں پہ ترے آفتاب روشن ہیں
ترے فلک پہ چمکتا ہے اک ستارہ مرا

جو چاہتا ہے وہ تسخیر کر لے دنیا کو
کسی بھی شے پہ نہیں ہے یہاں اجارہ مرا

میں ہمکنار ہوا ایک لہر سے اور پھر
کنارے ہی میں کہیں گم ہوا کنارہ مرا

بس ایک لمحۂ بے نام کی گرفت میں ہیں
نہ جانے کیسا تعلق ہے یہ تمہارا مرا

تو پھر جو نفع ہے میں اس میں کیوں نہیں شامل
اگر یہاں کا خسارہ ہے سب خسارہ مرا

جو دھیان تک نہیں دیتا ہے میری باتوں پر
سمجھ رہا ہے وہی شخص تو اشارہ مرا

کہیں خوشی کی نمائش میں رکھ دیا جا کر
کل اس نے بستہ غم طاق سے اتارا مرا

وہی ہے تل وہی رخسار ہیں وہی تو ہے
مگر نہیں ہے سمرقند اور بخارا مرا

میں باد و باراں سے آتش کشید کرتا ہوں
کہ آب و خاک کی تمثیل ہے ادارہ مرا

اب آ گیا ہوں تو سوچا صدا لگاتا چلوں
کسے خبر یہاں آنا نہ ہو دوبارہ مرا

درون خانہ کوئی بھی نہیں کسی کا سلیمؔ
پہ دیکھنے میں تو لگتا ہے شہر سارا مرا