EN हिंदी
نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہی خوف لگتا ہے | شیح شیری
na jaane kyun mujhe us se hi KHauf lagta hai

غزل

نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہی خوف لگتا ہے

وسیم بریلوی

;

نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہی خوف لگتا ہے
مرے لئے جو زمانے کو چھوڑ آیا ہے

اندھیری شب کے حوالوں میں اس کو رکھا ہے
جو سارے شہر کی نیندیں اڑا کے سویا ہے

رفاقتوں کے سفر میں تو بے یقینی تھی
یہ فاصلہ ہے جو رشتہ بنائے رکھتا ہے

وہ خواب تھے جنہیں ہم مل کے دیکھ سکتے تھے
یہ بار زیست ہے تنہا اٹھانا پڑتا ہے

ہمیں کتابوں میں کیا ڈھونڈنے چلے ہو وسیمؔ
جو ہم کو پڑھ نہیں پائے انہیں نے لکھا ہے