EN हिंदी
نہ ہو یا رب ایسی طبیعت کسی کی | شیح شیری
na ho ya rab aisi tabiat kisi ki

غزل

نہ ہو یا رب ایسی طبیعت کسی کی

افسر الہ آبادی

;

نہ ہو یا رب ایسی طبیعت کسی کی
کہ ہنس ہنس کے دیکھے مصیبت کسی کی

جفا ان سے مجھ سے وفا کیسے چھوٹے
یہ سچ ہے نہیں چھٹتی عادت کسی کی

اچھوتا جو غم ہو تو اس میں بھی خوش ہوں
نہیں مجھ کو منظور شرکت کسی کی

حسینوں کی دونوں ادائیں ہیں دلبر
کسی کی حیا تو شرارت کسی کی

مجھے گم شدہ دل کا غم ہے تو یہ ہے
کہ اس میں بھری تھی محبت کسی کی

بہت روئے ہم یاد میں اپنے دل کی
جہاں دیکھی ننھی سی تربت کسی کی