EN हिंदी
نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل | شیح شیری
na do dushnam hum ko itni bad-KHui se kya hasil

غزل

نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل

بہادر شاہ ظفر

;

نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل
تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل

دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل
نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل

نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے
جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل

برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بدگوئی سے کیا حاصل

نہ کر فکر خضاب اے شیخ تو پیری میں جانے دے
جواں ہونا نہیں ممکن سیہ روئی سے کیا حاصل

چڑھائے آستیں خنجر بکف وہ یوں جو پھرتا ہے
اسے کیا جانے ہے اس عربدہ جوئی سے کیا حاصل

عبث پنبہ نہ رکھ داغ دل سوزاں پہ تو میرے
کہ انگارے پہ ہوگا چارہ گر روئی سے کیا حاصل

شمیم زلف ہو اس کی تو ہو فرحت مرے دل کو
صبا ہووے گا مشک چیں کی خوشبوئی سے کیا حاصل

نہ ہووے جب تلک انساں کو دل سے میل یک جانب
ظفرؔ لوگوں کے دکھلانے کو یکسوئی سے کیا حاصل