مری نگاہ کا پیغام بے صدا جو ہوا
وہ میری بات سنے کیوں میں بے نوا جو ہوا
سواد شہر میں ملتے ہیں لوگ سنگ بدست
سواد شہر سے صحرا کو راستہ جو ہوا
ملا نہ تو تو غم زندگی کے دیوانے
ادھر ہی لوٹ پڑے میں تیرا پتا جو ہوا
تمام رات میں سنتا رہا تری آواز
ترا خیال ہی مجھ کو تری صدا جو ہوا
ہوائے گل بھی پریشاں قبائے گل بھی چاک
جنوں کا فصل بہاراں سے رابطہ جو ہوا
غزل
مری نگاہ کا پیغام بے صدا جو ہوا
اختر ہوشیارپوری