EN हिंदी
مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت | شیح شیری
mere liye teri nazron ki raushni hai bahut

غزل

مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت

محمود شام

;

مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت
کہ دیکھ لوں تجھے پل بھر مجھے یہی ہے بہت

یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت

کچھ اس خطا کی سزا بھی تو کم نہیں ملتی
غریب شہر کو اک جرم آگہی ہے بہت

کہاں سے لاؤں وہ چہرہ وہ گفتگو وہ ادا
ہزار حسن ہے گلیوں میں، آدمی ہے بہت

کبھی تو مہلت نظارہ نکہت گزراں
لبوں پہ آگ سلگتی ہے تشنگی ہے بہت

کسی نے ہنس کے جو دیکھا تو ہو گئے اس کے
کہ اس زمانے میں اتنی سی بات بھی ہے بہت