EN हिंदी
ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا | شیح شیری
aisa tera rahguzar na hoga

غزل

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا

میر تقی میر

;

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا

کیا ان نے نشے میں مجھ کو مارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا

دھوکا ہے تمام بحر دنیا
دیکھے گا کہ ہونٹ تر نہ ہوگا

آئی جو شکست آئینے پر
روئے دل یار ادھر نہ ہوگا

دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا

اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا

دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا

آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہوگا

ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالے میں مرے اثر نہ ہوگا

پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہوگا