EN हिंदी
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا | شیح شیری
us ka KHiram dekh ke jaya na jaega

غزل

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

میر تقی میر

;

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم یار
سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا

ہم رہرو‌ان راہ فنا ہیں برنگ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا

پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا

اپنے شہید ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر
دیوان حشر میں اسے لایا نہ جائے گا

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

ہم بے خود ان محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا

گو بے ستوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن
سنگ گران عشق اٹھایا نہ جائے گا

ہم تو گئے تھے شیخ کو انسان بوجھ کر
پر اب سے خانقاہ میں جایا نہ جائے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا