EN हिंदी
اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی | شیح شیری
ab ke bhi sair bagh ki ji mein hawas rahi

غزل

اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی

میر تقی میر

;

اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی

میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی

لطف قبائے تنگ پہ گل کا بجا ہے ناز
دیکھی نہیں ہے ان نے تری چولی چس رہی

دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی

خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی
ہر زخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی

دیوانگی کہاں کہ گریباں سے تنگ ہوں
گردن مری ہے طوق میں گویا کہ پھنس رہی

جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کھل کے ہنس سکے
فرصت رہی جو میرؔ بھی سو یک نفس رہی