EN हिंदी
موت نے مسکرا کے پوچھا ہے | شیح شیری
maut ne muskura ke puchha hai

غزل

موت نے مسکرا کے پوچھا ہے

عباس دانا

;

موت نے مسکرا کے پوچھا ہے
زندگی کا مزاج کیسا ہے

اس کی آنکھوں میں میری غزلیں ہیں
میری غزلوں میں اس کا چہرا ہے

اس سے پوچھو عذاب رستوں کا
جس کا ساتھی سفر میں بچھڑا ہے

چاندنی صرف ہے فریب نظر
چاند کے گھر میں بھی اندھیرا ہے

عشق میں بھی مزہ ہے جینے کا
غم اٹھانے کا گر سلیقہ ہے

چھوڑ زخموں پہ تبصرہ کرنا
اب قلم سے لہو ٹپکتا ہے

روشنی کی زبان میں داناؔ
وہ چراغوں سے بات کرتا ہے