EN हिंदी
منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے | شیح شیری
manzilon ke fasle diwar-o-dar mein rah gae

غزل

منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے

اختر ہوشیارپوری

;

منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے
کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے

اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں
اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے

جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں
اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے

اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے
طاقچوں پر بھی دیئے خالی نگر میں رہ گئے

کر گئی ہے نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت
صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے

ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں
کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے

کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں
کیسے کیسے عکس میری چشم تر میں رہ گئے

ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلووں میں تھیں
اور میرے ہم سفر گرد سفر میں رہ گئے

کیا ہجوم رنگ اخترؔ کیا فروغ بوئے گل
موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے