EN हिंदी
منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے | شیح شیری
manzilen na bhulenge rah-rau bhaTakne se

غزل

منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے

ادیب سہارنپوری

;

منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے

زندگی کے رشتے بھی دور دور تک نکلے
روح جاگ اٹھتی ہے پھول کے مہکنے سے

کتنے تیر کھائے ہیں کتنے غم اٹھائے ہیں
باز ہی نہیں آتا دل مگر دھڑکنے سے

ایک ساغر لبریز اور صورت سقراط
جاوداں نہیں ہوتے صرف زہر چکھنے سے

کار آشیاں بندی اور ہو گیا محبوب
جوہر طلب چمکا بجلیاں کڑکنے سے

گرم ہو کے پچھتائے باد تند کے جھونکے
روشنی چراغوں کی بڑھ گئی بھڑکنے سے

اے ادیب پر گوئی فرض تو نہیں کوئی
کیا بری ہے خاموشی اول فول بکنے سے