EN हिंदी
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا | شیح شیری
main is umid pe Duba ki tu bacha lega

غزل

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا

وسیم بریلوی

;

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا

یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر اک اپنا راستہ لے گا

میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں کہ پھر جلا لے گا

کلیجہ چاہئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا

میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے
لکیریں ہاتھ کی اپنی وہ سب جلا لے گا

ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بلا لے گا