EN हिंदी
میں حرف دیکھوں کہ روشنی کا نصاب دیکھوں | شیح شیری
main harf dekhun ki raushni ka nisab dekhun

غزل

میں حرف دیکھوں کہ روشنی کا نصاب دیکھوں

اختر ہوشیارپوری

;

میں حرف دیکھوں کہ روشنی کا نصاب دیکھوں
مگر یہ عالم کہ ٹہنیوں پر گلاب دیکھوں

پرانے خوابوں سے ریزہ ریزہ بدن ہوا ہے
یہ چاہتا ہوں کہ اب نیا کوئی خواب دیکھوں

یہ راستے تو مری ہتھیلی کے ترجماں ہیں
میں ان لکیروں میں زندگی کی کتاب دیکھوں

مراجعت کا سفر تو ممکن نہیں رہا ہے
میں چلتا جاؤں کہ موسموں کا عذاب دیکھوں

میں اپنی تصویر دیکھ کر مطمئن کہاں ہوں
وہ دن بھی آئے لہو کو جب کامیاب دیکھوں