EN हिंदी
میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا | شیح شیری
main fath-e-zat manzar tak na pahuncha

غزل

میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا

احمد شناس

;

میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا
مرا تیشہ مرے سر تک نہ پہنچا

اسے معمار لکھا بستیوں نے
کہ جو پہلے ہی پتھر تک نہ پہنچا

تجارت دل کی دھڑکن گن رہی ہے
تعلق لطف منظر تک نہ پہنچا

شگفتہ گال تیکھے خط کا موسم
دوبارہ نخل پیکر تک نہ پہنچا

بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا
میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا

یہ کیسا پیاس کا موسم ہے احمدؔ
سمندر دیدۂ تر تک نہ پہنچا