EN हिंदी
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی | شیح شیری
kuchh tabiat hi mili thi aisi chain se jine ki surat na hui

غزل

کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی

ندا فاضلی

;

کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی
جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی

جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا
رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی

دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا
بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے یہ شکایت نہ ہوئی

چھوڑ کر گھر کو کہیں جانے سے گھر میں رہنے کی عبادت تھی بڑی
جھوٹ مشہور ہوا راجا کا سچ کی سنسار میں شہرت نہ ہوئی

وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا
دوستی کی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی