EN हिंदी
کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے | شیح شیری
kuchh shafaq Dubte suraj ki bacha li jae

غزل

کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے

احمد شناس

;

کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے
رنگ امکاں سے کوئی شکل بنا لی جائے

حرف مہمل سا کوئی ہاتھ پہ اس کے رکھ دو
قحط کیسا ہے کہ ہر سانس سوالی جائے

شہر ملبوس میں کیوں اتنا برہنہ رہیے
کوئی چھت یا کوئی دیوار خیالی جائے

ساتھ ہو لیتا ہے ہر شام وہی سناٹا
گھر کو جانے کی نئی راہ نکالی جائے

پھینک آنکھوں کو کسی جھیل کی گہرائی میں
بت کوئی سوچ کہ آوارہ خیالی جائے

تشنۂ زخم نہ رہنے دے بدن کو احمدؔ
ایسی تلوار سر شہر اچھالی جائے