EN हिंदी
کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں | شیح شیری
kuchh aisa pas-e-ghairat uTh gaya is ahd-e-pur-fan mein

غزل

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں

چکبست برج نرائن

;

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں
کہ زیور ہو گیا طوق غلامی اپنی گردن میں

شجر سکتے میں ہیں خاموش ہیں بلبل نشیمن میں
سدھارا قافلہ پھولوں کا سناٹا ہے گلشن میں

گراں تھی دھوپ اور شبنم بھی جن پودوں کو گلشن میں
تری قدرت سے وہ پھولے پھلے صحرا کے دامن میں

ہوائے تازہ دل کو خود بخود بے چین کرتی ہے
قفس میں کہہ گیا کوئی بہار آئی ہے گلشن میں

مٹانا تھا اسے بھی جذبۂ شوق فنا تجھ کو
نشان قبر مجنوں داغ ہے صحرا کے دامن میں

زمانہ میں نہیں اہل ہنر کا قدر داں باقی
نہیں تو سیکڑوں موتی ہیں اس دریا کے دامن میں

یہاں تسبیح کا حلقہ وہاں زنار کا پھندا
اسیری لازمی ہے مذہب شیخ و برہمن میں

جنہیں سینچا تھا خون دل سے اگلے باغبانوں نے
ترستے اب ہیں پانی کو وہ پودے میرے گلشن میں

دکھایا معجزہ حسن بشر کا دست قدرت نے
بھری تاثیر تصویر گلی کے رنگ و روغن میں

شہید یاس ہوں رسوا ہوں ناکامی کے ہاتھوں سے
جگر کا چاک بڑھ کر آ گیا ہے میرے دامن میں

جہاں میں رہ کے یوں قائم ہوں اپنی بے ثباتی پر
کہ جیسے عکس گل رہتا ہے آب جوئے گلشن میں

شراب حسن کو کچھ اور ہی تاثیر دیتا ہے
جوانی کے نمو سے بے خبر ہونا لڑکپن میں

شباب آیا ہے پیدا رنگ ہے رخسار نازک سے
فروغ حسن کہتا ہے سحر ہوتی ہے گلشن میں

نہیں ہوتا ہے محتاج نمائش فیض شبنم کا
اندھیری رات میں موتی لٹا جاتی ہے گلشن میں

متاع درد دل اک دولت بیدار ہے مجھ کو
در شہوار ہیں اشک محبت میرے دامن میں

نہ بتلائی کسی نے بھی حقیقت راز ہستی کی
بتوں سے جا کے سر پھوڑا بہت دیر برہمن میں

پرانی کاوشیں دیر و حرم کی مٹتی جاتی ہے
نئی تہذیب کے جھگڑے ہیں اب شیخ و برہمن میں

اڑا کر لے گئی باد خزاں اس سال اس کو بھی
رہا تھا ایک برگ زرد باقی میرے گلشن میں

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں