EN हिंदी
کوئی سوچے نہ ہمیں کوئی پکارا نہ کرے | شیح شیری
koi soche na hamein koi pukara na kare

غزل

کوئی سوچے نہ ہمیں کوئی پکارا نہ کرے

ابرار احمد

;

کوئی سوچے نہ ہمیں کوئی پکارا نہ کرے
ہم کہیں ہیں کہ نہیں ہیں کوئی چرچا نہ کرے

رات افسوں ہے کہیں کا نہیں رہنے دیتی
دن کو سوئے نہ کوئی رات کو جاگا نہ کرے

ہم نکل آئے ہیں اب دھوپ میں جلنے کے لیے
کوئی بادل نہیں بھیجے کوئی سایہ نہ کرے

ان گنت آنکھوں میں ہم جلتے رہے بجھتے رہے
اب بھلے خواب ہمارا کوئی دیکھا نہ کرے

ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے دیواروں میں
کام جو دل نے کیا چشم تماشا نہ کرے

کوئی اب جا کے ذرا دیکھے تو اس مٹی کو
ایسے سیراب کیا ہے کوئی دریا نہ کرے

گو فراموشی کی تکمیل ہوا چاہتی ہے
پھر بھی کہہ دو کہ ہمیں یاد وہ آیا نہ کرے

ہم اسے رنج تمنا سے تو بھر سکتے ہیں
اور یہ دل ہے کہ اب کوئی تقاضا نہ کرے

وار کرنا ہے اگر ہم پہ تو وہ کھل کر آئے
اور بھولے سے بھی یہ کام وہ تنہا نہ کرے