کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
اس دشت بے کسی میں کوئی آسرا تو ہو
کچھ دھندلے دھندلے خواب ہیں کچھ کانپتے چراغ
زاد سفر یہی ہے کچھ اس کے سوا تو ہو
سورج ہی جب نہ چمکے تو پگھلے گی برف کیا
بن جائیں وہ بھی موم مگر دل دکھا تو ہو
ہر چہرہ مصلحت کی نقابوں میں کھو گیا
مل بیٹھیں کس کے ساتھ کوئی آشنا تو ہو
خاموش پتھروں کی طرح کیوں ہوا ہے شہر
دھڑکن دلوں کی گر نہیں آواز پا تو ہو
باقی ہے ایک درد کا رشتہ سو وہ بھی اب
کس سے نبھائیں ہم کوئی درد آشنا تو ہو
غزل
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
بشر نواز