EN हिंदी
کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے | شیح شیری
kisi pe bar-e-digar bhi nigah kar na sake

غزل

کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے

علی اکبر عباس

;

کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے
کوئی بھی شوق بحد گناہ کر نہ سکے

اجڈ پنے میں طلب کر گئے جواز خطا
خضر کے ساتھ بھی ہم تو نباہ کر نہ سکے

دیار ہجر بسایا ہے جو کہ برسوں میں
دم وصال کی خاطر تباہ کر نہ سکے

اماں طلب نہ ہوئے دشت بے پناہ میں ہم
سواد جاں بھی مگر حرف راہ کر نہ سکے

سفر مآب یہی بحر و بر ہے پھر بھی ہم
پروں کو اپنے کشا خواہ مخواہ کر نہ سکے