EN हिंदी
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے | شیح شیری
kisi kali ne bhi dekha na aankh bhar ke mujhe

غزل

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

ناصر کاظمی

;

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کر کے مجھے

میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے

میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے

ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے

ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے ادھر ادھر کے مجھے