EN हिंदी
کس توقع پہ کیا اٹھا رکھیے | شیح شیری
kis tawaqqoa pe kya uTha rakhiye

غزل

کس توقع پہ کیا اٹھا رکھیے

احمد ہمیش

;

کس توقع پہ کیا اٹھا رکھیے
دل سلامت نہیں تو کیا رکھیے

لکھیے کچھ اور داستان دل
اور زمانہ کو مبتلا رکھیے

سر میں سودا رہے محبت کا
پاؤں میں خاک کی انا رکھیے

بوند بھر آب کیا مقدر ہے
ابر رکھیے تو کچھ ہوا رکھیے

اس سے پہلے کوئی جلانے آئے
آپ اپنا ہی گھر جلا رکھیے

قبل انصاف چل بسا ملزم
اب عدالت سے کیا روا رکھیے

جان جانی ہے جب عبث ہی ہمیشؔ
پھر تو دنیا سے فاصلہ رکھیے