EN हिंदी
خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی | شیح شیری
KHu samajh mein nahin aati tere diwanon ki

غزل

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

حسرتؔ موہانی

;

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی

جلوۂ ساغر و مینا ہے جو ہمرنگ بہار
رونقیں طرفہ ترقی پہ ہیں مے خانوں کی

ہر طرف بے خودی و بے خبری کی ہے نمود
قابل دید ہے دنیا ترے حیرانوں کی

سہل اس سے تو یہی ہے کہ سنبھالیں دل کو
منتیں کون کرے آپ کے دربانوں کی

آنکھ والے تری صورت پہ مٹے جاتے ہیں
شمع محفل کی طرف بھیڑ ہے پروانوں کی

اے جفاکار ترے عہد سے پہلے تو نہ تھی
کثرت اس درجہ محبت کے پشیمانوں کی

راز غم سے ہمیں آگاہ کیا خوب کیا
کچھ نہایت ہی نہیں آپ کے احسانوں کی

دشمن اہل مروت ہے وہ بیگانۂ انس
شکل پریوں کی ہے خو بھی نہیں انسانوں کی

ہم رہ غیر مبارک انہیں گلگشت چمن
سیر ہم کو بھی میسر ہے بیابانوں کی

اک بکھیڑا ہے نظر میں سر و سامان وجود
اب یہ حالت ہے ترے سوختہ سامانوں کی

فیض ساقی کی عجب دھوم ہے مے خانوں میں
ہر طرف مے کی طلب مانگ ہے پیمانوں کی

عاشقوں ہی کا جگر ہے کہ ہیں خرسند جفا
کافروں کی ہے یہ ہمت نہ مسلمانوں کی

یاد پھر تازہ ہوئی حال سے تیرے حسرتؔ
قیس و فرہاد کے گزرے ہوئے افسانوں کی