EN हिंदी
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں | شیح شیری
KHushbu jaise log mile afsane mein

غزل

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

گلزار

;

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں