EN हिंदी
خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا | شیح شیری
KHush hun ki zindagi ne koi kaam kar diya

غزل

خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا

عبد الحمید عدم

;

خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا
مجھ کو سپرد گردش ایام کر دیا

ساقی سیاہ خانۂ ہستی میں دیکھنا
روشن چراغ کس نے سر شام کر دیا

پہلے مرے خلوص کو دیتے رہے فریب
آخر مرے خلوص کو بدنام کر دیا

کتنی دعائیں دوں تری زلف دراز کو
کتنا وسیع سلسلۂ دام کر دیا

وہ چشم مست کتنی خبردار تھی عدمؔ
خود ہوش میں رہی ہمیں بدنام کر دیا