EN हिंदी
خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ | شیح شیری
KHirad walo junun walon ke viranon mein aa jao

غزل

خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ

علی سردار جعفری

;

خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ
دلوں کے باغ زخموں کے گلستانوں میں آ جاؤ

یہ دامان و گریباں اب سلامت رہ نہیں سکتے
ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ہے دیوانوں میں آ جاؤ

ستم کی تیغ خود دست ستم کو کاٹ دیتی ہے
ستم رانو تم اب اپنے عزا خانوں میں آ جاؤ

یہ کب تک سرد لاشیں بے حسی کے برف خانوں میں
چراغ درد سے روشن شبستانوں میں آ جاؤ

یہ کب تک سیم و زر کے جنگلوں میں مشق خونخواری
یہ انسانوں کی بستی ہے اب انسانوں میں آ جاؤ

کبھی شبنم کا قطرہ بن کے چمکو لالہ و گل پر
کبھی دریاؤں کی صورت بیابانوں میں آ جاؤ

ہوا ہے سخت اب اشکوں کے پرچم اڑ نہیں سکتے
لہو کے سرخ پرچم لے کے میدانوں میں آ جاؤ

جراحت خانۂ دل ہے تلاش رنگ و نکہت میں
کہاں ہو اے گلستانو گریبانوں میں آ جاؤ

زمانہ کر رہا ہے اہتمام جشن بے داری
گریباں چاک کر کے شعلہ دامانوں میں آ جاؤ