خیرات صرف اتنی ملی ہے حیات سے
پانی کی بوند جیسے عطا ہو فرات سے
شبنم اسی جنوں میں ازل سے ہے سینہ کوب
خورشید کس مقام پہ ملتا ہے رات سے
ناگاہ عشق وقت سے آگے نکل گیا
اندازہ کر رہی ہے خرد واقعات سے
سوئے ادب نہ ٹھہرے تو دیں کوئی مشورہ
ہم مطمئن نہیں ہیں تری کائنات سے
ساکت رہیں تو ہم ہی ٹھہرتے ہیں با قصور
بولیں تو بات بڑھتی ہے چھوٹی سی بات سے
آساں پسندیوں سے اجازت طلب کرو
رستہ بھرا ہوا ہے عدمؔ مشکلات سے
غزل
خیرات صرف اتنی ملی ہے حیات سے
عبد الحمید عدم