EN हिंदी
کہتا ہے باغبان لہٰذا نہ چاہئے | شیح شیری
kahta hai baghban lihaza na chahiye

غزل

کہتا ہے باغبان لہٰذا نہ چاہئے

شاد عارفی

;

کہتا ہے باغبان لہٰذا نہ چاہئے
ورنہ چمن کا حال چھپانا نہ چاہئے

اس مشورہ کے ساتھ کہ چرچا نہ چاہئے
دل کہہ رہا ہے ان پہ بھروسہ نہ چاہئے

پڑ جائے خد و خال مناظر پہ روشنی
اتنے قریب سے بھی نظارہ نہ چاہئے

ہم غور کر رہے ہیں تو محفل ہے فکر میں
اٹھنا نہ چاہئے کہ اٹھانا نہ چاہئے

دستور ہے گزارش احوال واقعی
قانون یہ نہیں ہے کہ شکوہ نہ چاہئے

طوفان انقلاب سے مایوسیوں کے بعد
کشتی پکارتی ہے کنارا نہ چاہئے

گل ہائے رنگ رنگ میں ٹھنتی نہیں کبھی
ہم کو بھی اس لحاظ سے جھگڑا نہ چاہئے

کٹتی ہے آرزو کے سہارے پہ زندگی
کیسے کہوں کسی کی تمنا نہ چاہئے

میرا قصور یہ ہے کہ حب وطن میں شادؔ
لکھتا ہوں لکھ چکا ہوں جو لکھنا نہ چاہئے