EN हिंदी
کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے | شیح شیری
kaho kya mehrban na-mehrban taqdir hoti hai

غزل

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے

انجم خلیق

;

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے
کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

کہو کیا بات کرتی ہے کبھی صحرا کی خاموشی
کہا اس خامشی میں بھی تو اک تقریر ہوتی ہے

کہا میں نے کہ رنج بے مکانی کب ستاتا ہے
کہا جب مقبرے یا قصر کی تعمیر ہوتی ہے

کہا میں نے حصار ذات میں یہ نفس کی دنیا
جواب آیا کہ سب کچھ ہار کر تسخیر ہوتی ہے

کہا یہ خواہش و ترغیب اور یہ خون کے رشتے
کہا زندانیوں کے پاؤں میں زنجیر ہوتی ہے

کہا وہ جو سوالی آنکھ کی پتلی پہ لکھی تھی
کہا سب سے مؤثر تو وہی تحریر ہوتی ہے

کہا اہل خرد انجمؔ تمہیں بیکار کہتے ہیں
کہا سکے کی اپنے دیس میں توقیر ہوتی ہے