EN हिंदी
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے | شیح شیری
jo be-sabaat ho us sarKHushi ko kya kije

غزل

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے

ن م راشد

;

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے
یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے

رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے

یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے

کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے

ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے

ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے

جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے

وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے