EN हिंदी
جو اشک بن کے ہماری پلک پہ بیٹھا تھا | شیح شیری
jo ashk ban ke hamari palak pe baiTha tha

غزل

جو اشک بن کے ہماری پلک پہ بیٹھا تھا

عادل رضا منصوری

;

جو اشک بن کے ہماری پلک پہ بیٹھا تھا
تمہیں بھی یاد ہے اب تک وہ خواب کس کا تھا

ہمیشہ پوچھتی رہتی ہے راستوں کی ہوا
یونہی رکے ہو یہاں یا کسی نے روکا تھا

لگا ہوا ہے ابھی تک یہ جان کو کھٹکا
کہ اس نے جاتے ہوئے کیوں پلٹ کے دیکھا تھا

خبر کسے ہے کسے پوچھیے بتائے کون
پرانے قصر میں کیا صبح و شام جلتا تھا

وجود ہے یہ کہیں بہہ نہ جائے لہروں میں
گرا گرا کے پلک آب جو کو روکا تھا

فضائیں ایسی تو عادلؔ کبھی نہ مہکی تھیں
ہوا کے ہاتھ پہ یہ کس کا نام لکھا تھا