EN हिंदी
جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں (ردیف .. ا) | شیح شیری
jise pala tha ek muddat tak aaghosh-e-tamanna mein

غزل

جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں (ردیف .. ا)

شاد عظیم آبادی

;

جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں
وہی بانی ہوا میرے غم و درد و اذیت کا

اسی کے ہاتھ سے کیا کیا سہا سہنا ہے کیا کیا کچھ
الٰہی دو جہاں میں منہ ہو کالا اس مروت کا

کریں انصاف کا دعویٰ اثر کچھ بھی نہ ظاہر ہو
مزا چکھا ہے ایسے دوستوں سے بھی محبت کا

مٹائیں تاکہ اپنے ظلم کرنے کی ندامت کو
نکالیں ڈھونڈ کر ہر طرح سے پہلو شکایت کا

حسد جی میں بھرا ہے لاگ ہے اک عمر سے دل میں
کریں ظاہر اگر موقع ہے اظہار عداوت کا

طمع میں کچھ نہ سمجھیں باپ اور بھائی کی حرمت کو
عمل دیکھو تو یہ پھر کچھ کریں دعوا شرافت کا

مری عمر دو روزہ بیکسی کے ساتھ کٹتی ہے
نہ اپنوں سے نہ غیروں سے ملا ثمرہ ریاضت کا

جسے دیکھا جسے پایا غرض کا اپنی بندہ تھا
جہاں میں اب مزا باقی نہیں خالص محبت کا

ہمارا کلبۂ احزاں ہے ہم ہیں یا کتابیں ہیں
رہا باقی نہ کوئی ہم نشیں اب اپنی قسمت کا

خدا آباد رکھے شادؔ میرے ان عزیزوں کو
مزا چکھوا دیا القرض مقراض المحبت کا