EN हिंदी
جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں | شیح شیری
jin KHwahishon ko dekhti rahti thi KHwab mein

غزل

جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں

فاطمہ حسن

;

جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں
اب لکھ رہی ہوں ان کو حقیقت کے باب میں

اک جھیل کے کنارے پرندوں کے درمیاں
سورج کو ہوتے دیکھا تھا تحلیل آب میں

خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں

اک ہاتھ اس کا جال پہ پتوار ایک میں
اور ڈوبتا وجود مرا سیل آب میں

پروائی چل کے اور بھی وحشت بڑھا گئی
ہلکی سی آ گئی تھی کمی اضطراب میں