EN हिंदी
جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا | شیح شیری
jalwa dikhlae jo wo apni KHud-arai ka

غزل

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا

عزیز لکھنوی

;

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
نور جل جائے ابھی چشم تماشائی کا

رنگ ہر پھول میں ہے حسن خود آرائی کا
چمن دہر ہے محضر تری یکتائی کا

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش
نور سب کھینچ لیا چشم تماشائی کا

دیکھ کر نظم دوعالم ہمیں کہنا ہی پڑا
یہ سلیقہ ہے کسے انجمن آرائی کا

کل جو گلزار میں ہیں گوش بر آواز عزیزؔ
مجھ سے بلبل نے لیا طرز یہ شیوائی کا