EN हिंदी
جب سے میں خود کو کھو رہا ہوں | شیح شیری
jab se main KHud ko kho raha hun

غزل

جب سے میں خود کو کھو رہا ہوں

احمد ہمیش

;

جب سے میں خود کو کھو رہا ہوں
کروٹ بدل کے سو رہا ہوں

یہ جاگنا اور سونا کیا ہے
آنکھوں میں جہاں سمو رہا ہوں

دنیا سے الجھ کے سر پر شاید
اپنی ہی بلا کو ڈھو رہا ہوں

یہ لاگ اور لگاؤ کیا ہے
اپنا وجود ہی ڈبو رہا ہوں

اب تک جو زندگی ہے گزری
کانٹے نفس میں بو رہا ہوں

ہے کچھ تو اپنی پردہ داری
نہ جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں

اتنا ہے کھوٹ میرے من میں
پانی میں دودھ بلو رہا ہوں

اے دل فگار بے ثبات ہستی
تیری ہی جان کو رو رہا ہوں

جتنی ہے دور موت مجھ سے
اتنا ہی قریب ہو رہا ہوں

شیرازہ یوں بکھر رہا ہے
خود میں تباہ ہو رہا ہوں

کس راستے پر جا رہی ہے دنیا
یہ دیکھ کے ہی تو رو رہا ہوں

جانے ہمیشؔ خود کو کب سے
بے وجہ لہو میں ڈبو رہا ہوں