جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے
ایسے دیوانے بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے
ہم تو زخموں پہ بھی یہ سوچ کے خوش ہوتے ہیں
تحفۂ دوست ہیں جب یہ تو کرم ہی ہوں گے
بزم عالم میں جب آئے ہیں تو بیٹھیں کچھ اور
بس یہی ہوگا نا کچھ اور ستم ہی ہوں گے
جب بھی برباد وفا کوئی نظر آئے تمہیں
غور سے دیکھ لیا کرنا وہ ہم ہی ہوں گے
کوئی بھٹکا ہوا بادل کوئی اڑتی خوشبو
کون کہہ سکتا ہے اک دن یہ بہم ہی ہوں گے
غزل
جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے
بشر نواز