EN हिंदी
جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے | شیح شیری
jab kabhi honge to hum mail-e-gham hi honge

غزل

جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے

بشر نواز

;

جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے
ایسے دیوانے بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے

ہم تو زخموں پہ بھی یہ سوچ کے خوش ہوتے ہیں
تحفۂ دوست ہیں جب یہ تو کرم ہی ہوں گے

بزم عالم میں جب آئے ہیں تو بیٹھیں کچھ اور
بس یہی ہوگا نا کچھ اور ستم ہی ہوں گے

جب بھی برباد وفا کوئی نظر آئے تمہیں
غور سے دیکھ لیا کرنا وہ ہم ہی ہوں گے

کوئی بھٹکا ہوا بادل کوئی اڑتی خوشبو
کون کہہ سکتا ہے اک دن یہ بہم ہی ہوں گے