EN हिंदी
جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے | شیح شیری
jab kabhi baat kisi ki bhi buri lagti hai

غزل

جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے

آل احمد سرور

;

جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ سینے میں چھری لگتی ہے

رات بھاری تھی تو تھے اس کے ستم سے بے زار
صبح آئی ہے تو وہ اور بری لگتی ہے

وہ ہو آرائش افکار کہ زیبائش فن
آج دونوں کی روش خانہ پری لگتی ہے

لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب
روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ہے

اہل دانش ہوئے ارباب سیاست کے مرید
ایسی پستی پہ مرے دل میں چھری لگتی ہے