EN हिंदी
جب فکروں پر بادل سے منڈلاتے ہوں گے | شیح شیری
jab fikron par baadal se manDlate honge

غزل

جب فکروں پر بادل سے منڈلاتے ہوں گے

کالی داس گپتا رضا

;

جب فکروں پر بادل سے منڈلاتے ہوں گے
انساں گھٹ کر سائے سے رہ جاتے ہوں گے

دو دن کو گلشن پہ بہار آنے کو ہوگی
پنچھی دل میں راگ سدا کے گاتے ہوں گے

دنیا تو سیدھی ہے لیکن دنیا والے
جھوٹی سچی کہہ کے اسے بہکاتے ہوں گے

یاد آ جاتا ہوگا کوئی جب راہی کو
چلتے چلتے پاؤں وہیں رک جاتے ہوں گے

کلی کلی برہن کی چتا بن جاتی ہوگی
کالے بادل گھر کر آگے لگاتے ہوں گے

دکھ میں کیا کرتے ہوں گے دولت کے پجاری
روپ کھلونا توڑ کے من بہلاتے ہوں گے