جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا
ان ہاتھوں کی مہندی یاد آئی ان آنکھوں کا کاجل یاد آیا
سو طرح سے خود کو بہلا کر ہم جس کو بھلائے بیٹھے تھے
کل رات اچانک جانے کیوں وہ ہم کو مسلسل یاد آیا
تنہائی کے سائے بزم میں بھی پہلو سے جدا جب ہو نہ سکے
جو عمر کسی کے ساتھ کٹی اس عمر کا پل پل یاد آیا
جو زیست کے تپتے صحرا پر بھولے سے کبھی برسا بھی نہیں
ہر موڑ پہ ہر اک منزل پر پھر کیوں وہی بادل یاد آیا
ہم زود فراموشی کے لیے بدنام بہت ہیں پھر بھی بشرؔ
جب جب بھی چلی مدماتی پون اڑتا ہوا آنچل یاد آیا
غزل
جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا
بشر نواز