EN हिंदी
جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم | شیح شیری
jaane kahan the aur chale the kahan se hum

غزل

جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم

احمد ندیم قاسمی

;

جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم
بیدار ہو گئے کسی خواب گراں سے ہم

اے نو بہار ناز تری نکہتوں کی خیر
دامن جھٹک کے نکلے ترے گلستاں سے ہم

پندار عاشقی کی امانت ہے آہ سرد
یہ تیر آج چھوڑ رہے ہیں کماں سے ہم

آؤ غبار راہ میں ڈھونڈیں شمیم ناز
آؤ خبر بہار کی پوچھیں خزاں سے ہم

آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم