EN हिंदी
عشق میں معرکے بلا کے رہے | شیح شیری
ishq mein marke bala ke rahe

غزل

عشق میں معرکے بلا کے رہے

ظہور نظر

;

عشق میں معرکے بلا کے رہے
آخرش ہم شکست کھا کے رہے

یہ الگ بات ہے کہ ہارے ہم
حشر اک بار تو اٹھا کے رہے

سفر غم کی بات جب بھی چلی
تذکرے تیرے نقش پا کے رہے

جب بھی آئی کوئی خوشی کی گھڑی
دن غموں کے بھی یاد آ کے رہے

جس میں سارا ہی شہر دفن ہوا
فیصلے سب اٹل ہوا کے رہے

اپنی صورت بگڑ گئی لیکن
ہم انہیں آئینہ دکھا کے رہے

ہونٹ تک سی دیے تھے پھر بھی نظرؔ
ظلم کی داستاں سنا کے رہے